Home Blog

دوستی کی داستان: بلال اور پرانا کتا

0

بلال ایک چھوٹے شہر کے رہائشی تھا، جو روزانہ اپنی داڑی کے گھر سکول جاتا تھا۔ ایک دن، جب بلال اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، اچانک ایک چھوٹا پرانا کتا اُس کے پاس آیا۔ بلال نے اُسے دیکھ کر خوشی کے ساتھ چلتے ہوئے کہا: “تم میرے ساتھ چلو، ہم دوست بنیں گے۔”

اس پرانے کتے نے خوشی سے ہانس کر کہا: “شکریہ بلال، میں تمہارا بہت شکریہ کرتا ہوں کہ تم نے مجھے دوست بنایا۔”

بلال اور پرانا کتا روزانہ اچھے دوست بن گئے۔ وہ ساتھ میں سکول جاتے، ملاقاتیں کھیلتے اور اپنی باتوں کو شئیر کرتے۔ ایک دن، بلال نے اپنے دوستوں کو اپنے گھر بلانے کا فیصلہ کیا۔

پرانا کتا خوشی سے گھر آیا اور بلال کی داڑی نے اُسے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔ بلال کا گھر بھی اب مزید خوشی کا ماحول بن گیا۔

ایک دن، بلال نے دیکھا کہ اُس کا دوست پرانا کتا کچھ اداس سا ہے۔ بلال نے پوچھا: “تم کیوں اداس ہو؟”

پرانا کتا باتوں میں غرق ہو کر کہا: “میرے دل میں ایک خواہش ہے، میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اور بھی کچھ دوست ہوں۔”

بلال نے مسکرا کر کہا: “کوئی بات نہیں، ہم تمہارے لیے اور دوست لے کر آئیں گے۔”

پرانا کتا خوش ہوکر اُس نے بلال اور اُس کے دوستوں کو اپنی دنیا میں لے لیا۔ اب وہ سب مل کر کھیلتے، گاتے اور مزید دوست بناتے۔

ایک دن، وہ سب اپنے گاؤں کے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے میلے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں پر، اُنہوں نے اچھی دوستی اور تعاون کا سبق سیکھا۔

پرانا کتا اب بہت خوش تھا، اُس نے اپنی زندگی میں نئے دوست بنائے اور خوبصورت روزگار کی مثال قائم کی۔ بلال نے بھی اُس سے بہت سیکھا اور دوستی کی اہمیت کو محسوس کیا۔

ایک دن، جب وہ سب چھوٹے ہوگئے، وہ اپنے راستے بدلے، لیکن اُن کا دوستی کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا۔ وہ ہر ایک دوست کو یاد رکھتے اور دل کی باتوں میں سمجھوتہ کرتے۔ اُن کی دوستی ایک خوبصورت داستان کی طرح رہی، جو ہر کسی کو ایک دوسرے کے قیمتی ہونے کا احساس دیتی رہی۔

بلوچان کی چھوٹی سی دنیا

0

ایک دن، ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں کے چھوٹے سے بچے بلوچان رہتے تھے۔ یہاں کا ہر بچہ بہت خوش مزاج اور دلچسپ تھا، لیکن ان میں سے ایک بچہ تھا جو ہمیشہ کچھ نیا کرنے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس کا نام علی تھا۔

علی نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ ایک نیا دنیا بنانا چاہتا ہے، جہاں ہر کوئی خوش ہوتا اور ہر روز کچھ نیا دیکھنے کو ملتا۔ اس نئے دنیا کو “بلوچان کی چھوٹی سی دنیا” کہا گیا۔

علی نے اپنے دوستوں کو ملکر ملکر بڑا اور خوبصورت گلہ کھلانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر روز نئے چیزیں سیکھتے اور اپنے گاؤں کو ایک مزیدار جگہ بنانے کا خواب دیکھتے۔

اُس دن، علی نے اپنے دوستوں کو بلوچان کی چھوٹی سی دنیا میں بلانے کا اعلان کیا۔ اس نے ہر کسی کو خوش آمدید کہا اور گاؤں کو خوبصورتی سے سجانے کا منصوبہ بنایا۔

پہلا منصوبہ تھا “رنگینی گلدستہ”۔ علی نے گاؤں کے ہر بچے کو کچھ رنگین بالوں اور خوبصورت پھولوں کے بنانے کا موقع دیا۔ سب نے مل کر اچھے انداز میں گلے ملے اور خوبصورت گلہ تخلیق ہو گیا۔

دوسرا منصوبہ “خوابوں کا باغ” تھا۔ ہر بچہ اپنے خوابوں کو باغ میں بونا، اور وہ باغ ہر روز نئی کہانیوں اور حکایات سے بھرا ہوتا۔

تیسرا منصوبہ “محبت بھرا چمکتا ہوا چاندنی گھر” تھا۔ ہر بچہ اپنے گھر کو محبت بھرے رنگوں سے سجانے کا موقع دیا۔

“بلوچان کی چھوٹی سی دنیا” نے گاؤں کو خوبصورت بنا دیا۔ ہر کونے میں خوشیوں کا گلہ کھل گیا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھرے گزر گئے۔

ایک دن، بچوں نے ایک اور نیا منصوبہ شروع کیا، جس کا نام تھا “سبزیوں کا کھیت”۔ وہ نے گاؤں میں ایک خصوصی جگہ منتخب کی اور وہاں ہر بچہ ایک کھیت کا حصہ بنا۔ ہر کھیت میں مختلف سبزیاں اگائی گئیں اور یہاں سب نے مل کر اچھے دن کے لئے کام کرنا شروع کیا۔

گاؤں کے ہر بچے نے اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے میں مدد کی، اور “سبزیوں کا کھیت” نے گاؤں کو ایک مزیدار مکمل دنیا بنا دیا۔

“بلوچان کی چھوٹی سی دنیا” نے نہایت خوبصورت اور خوشیوں بھری دنیا کو جنم دیا۔ گاؤں والے اب ہر روز نئے خوابوں کے ساتھ ہر روز محبت بھرے دن گزارتے تھے۔

ایک دن، علی نے اپنے دوستوں سے کہا، “ہم نے اپنے خوابوں کو حقیقت بنا لیا ہے، اور یہاں ہر کوئی خوش ہے۔”

سب نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور گاؤں میں خوبصورتی اور خوشیوں کا گلہ چھایا رہا۔ “بلوچان کی چھوٹی سی دنیا” نے گاؤں کو ایک خوابوں کی دنیا بنا دیا، جہاں ہر کسی نے اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کیا۔

Allama Iqbal Poetry

0

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

کہاں سے تُو نے اے اقبال، سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچاپادشاہوںمیں ہے تیری بے نیازی کا

خواہشیں بادشاہوں کو غُلام بنا دیتی ہیں مگر صبر غُلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے

آنکھ جوکُچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

عِلم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جینّت ہے جِس میں حوّر نہیں

غُلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

عِلم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جینّت ہے جِس میں حوّر نہیں

اپنے کردار پے ڈال کر پردہ اقبالؔ ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ ،نئی صبح و شام پیدا کر۔

اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا تو اپنے اندر پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر

یہ جنت رہے مبارک زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں

کسان اور اس کا بیٹا

0

ایک چھوٹے گاؤں میں رہنے والا ایک کسان تھا جس کا نام رحمان تھا۔ رحمان چہتہ بھر محنت کرتا اور اپنے کھیتوں کو زرعی کاموں سے زینت دیتا۔ اس کی محنت سے گاؤں کا ماحول خوبصورت تر ہوتا گیا۔

رحمان کا بیٹا، جوان اور فوکس، اس کی محنت میں شامل ہونے لگا۔ اس کا نام عمر ہوا۔ عمر نے اپنے والد کو دیکھ کر اپنی زندگی میں بھی محنت اور استقامت کا درس حاصل کیا۔

ایک دن، گاؤں میں بڑی برسات ہو رہی تھی اور زمینیں پانی سے بھر گئی تھیں۔ رحمان نے فکرمند ہوکر عمر کو بلا کر کہا، “بیٹا، ہمیں اپنے پودوں کو پانی سے بچانا ہوگا۔ ہمیں زیادہ بھرنے والے پانی کا انتظار کرنا ہوگا تاکہ ہمیں بیشتر میوہ اور سبزیاں مل سکیں۔”

عمر نے اپنے والد کی باتوں کو سن کر مصروف ہوگیا اور ان کی مدد میں آیا۔ انہوں نے مل کر ایک مضبوط اور ٹھوس ڈیم بنایا تاکہ برساتیں آنے والے پانی کو اڑانا شروع ہوجائے۔

رحمان نے عمر کو بتایا کہ اڑانے والا پانی گاؤں کے اہم حصے کو بچاتا ہے اور ایک بہترین محاصل حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

سالوں بعد، گاؤں کی فلاحی حالت میں بہتری آئی اور گاؤں کے لوگوں نے رحمان اور عمر کی محنت اور استقامت کا شکریہ ادا کیا۔

رحمان نے عمر سے کہا، “بیٹا، تو نے ہمیشہ میری مدد کی ہے اور ہم نے مل کر گاؤں کو بہتر بنایا ہے۔ تو ہمارا آئیندہ بہتر بنا سکتا ہے۔

عمر نے مسکرا کر جواب دیا، “والد صاحب، آپ کی محنت اور رہنمائی کا شکریہ ہے۔ ہمیں ہمیشہ آپ کی طرح محنت اور گاؤں کی ترقی میں مدد کرنا ہے۔”

اس کے بعد، رحمان اور عمر نے مل کر اپنے گاؤں کو مزید بہتر بنانے کا عہد کیا اور اپنی محنت اور حکومت کو بڑھانے کا اہم راستہ چنا۔

“کسان اور اس کا بیٹا” کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محنت، استقامت اور میہنت باز کا دعوتی رشتہ ہوتا ہے جو ہمیشہ زندگی میں کامیابی کی راہ میں مدد فراہم کرتا ہے۔

Deep Quotes in Urdu

0

پیسے کمائیں یا نہ کمائیں دعائیں ضرور کمائیں اس سے جھونپڑی میں بھی محل والا سکون ملے گا

بچپن کی وہ امیری ناجانے کہاں کھو گئی جب بچپن میں ہمارے جہاز چلا کرتے تھے

سوچنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل صرف قسمت والوں کو عطا ہوتا ہے

ہمیشہ خوش رہنے کا مطلب یہ نہیں کے سب ٹھیک ہے اسکا مطلب یہ ہے کے آپ نے فیصلہ کرلیا کے اپنے رب کے سوا اپنے دکھ کسی کو نہیں دکھانے

کوئی دوسرا ذلیل تب ہی کرتا ہے جب ہم اسے اتنا اختیار سونپ دیتے ہیں

دعا ہے خدا سے بدل جائے وقت میرا میں بدلتے ہووے چہروں کو پھر سے بدلتا دیکھوں

رشتے ناتوں کی فکر کرنا چھوڑ دو جس نے جتنا ساتھ نبھانا ہو وہ اتنا ہی نبھاے گا

زندگی نے ایک چیز ضرور سکھائی ہے ایک اپنے میں خوش رہنا ایک دوسروں سے کوئی امید مت رکھنا

جو مرد بار بار عورت کو دھوپ میں لا کھڑا کرے وہ کبھی اس کی چھاؤں نہیں بن سکتا

انسان سب کچھ بھول سکتا ہے سوائےان لمحوں کے جب اسے اپنوں کی ضرورت تھی اور وہ دستیاب نہیں تھے۔

تمھارے نفس کی بہتری کے لیے اتنا کافی ہے کے تم ان چیزوں سے دور ہوجاؤ جو تمہیں دوسروں میں نہیں پسند

Inspirational Quotes in Urdu

0

آغاز پر اعتبار نہ کریں

سچے الفاظ آخری لمحے میں کہے جاتے ہیں۔

ہجوم کے ساتھ غلط راہ پر چلنے سے

بہتر ہے کے آپ تنہا راہ ہدایت پر چل پڑیں

کسی کو صرف چاہنا محبت نہیں۔

اس کی ذات کے تما م پہلووٗں کو تسلیم کرنا محبت ہے۔

برباد کرنے میں اکثر انہیں کا ہاتھ ہوتا ہے،

جو گلے لگا کر کہتے ہیں ہمیشہ خوش رہو۔

نفرتیں پالنے والے لوگ بہت کمزور ہوتے ہیں

۔جن میں محبتیں نبھا نے کی سکت نہیں ہوتی۔

اگر ہم سے غلطی ہوجائے تو ابلیس کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہیے۔

بلکہ معافی مانگ لینی چاہیے کیونکہ ہم ابن آدم ہیں ابن ابلیس نہیں۔

تنہا ہونا یہ نہیں ہوتا کے آپکے پاس کوئی نہیں ہے تنہا ہونا

دراصل یہ ہوتا ہے کہ سب آپ کے پاس ہیں لیکن آپ کا کوئی نہیں ہے

زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے اسے بے کار لوگوں کے پیچھے برباد مت کریں

زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے اسے

بے کار لوگوں کے پیچھے برباد مت کریں

مجھے کوئی پروا نہیں دشمن کی بس مجھے نفرت ہے

ان لوگوں سے جو دوستوں کے لباس میں منافق ہوں

جنھیں احساس ہی نہ ہو ان کے ساتھ گلے کیسے شکوے کیسے

پتھر کا سوپ

0

بہت عرصہ پہلے، ایک گاؤں میں جو ندی سے زیادہ دور نہیں تھا، ایک مہربان سپاہی دھول بھری گلی سے نیچے جا رہا تھا۔ اس کی حرکت سست تھی کیونکہ وہ  سارے دن سے چل رہا تھا۔ اسے ایک اچھا، گرم کھانا کھانے کے علاوہ اور کچھ پسند نہیں تھا۔ جب وہ سڑک کے کنارے ایک عجیب و غریب گھر پر پہنچا تو اس نے اپنے آپ میں سوچا، ‘یہاں رہنے والے کے پاس میرے جیسے بھوکے مسافر کے ساتھ بانٹنے کے لیے کچھ اضافی کھانا ضرور ہوگا۔ میرا خیال ہے میں جا کر پوچھوں گا۔’

اور یوں سپاہی گوبھیوں، آلوؤں، پیازوں اور گاجروں سے بھرے باغ سے گزرتے ہوئے لکڑی کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ گھر کے سامنے پہنچ کر جیسے ہی دستک دینے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا  تب دروازہ اچانک کھل گیاا۔ دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ کولہوں پر تھے اور اس نے تیوری چڑھائی ہوئی تھی۔

‘تم کیا چاہتے ہو؟’ بوڑھے نے بدتمیزی سے کہا۔ پھر بھی سپاہی اسے دیکھ کر مسکرایا۔

‘ہیلو، میں ایک گاؤں کا سپاہی ہوں جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں آپ کے پاس یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی کھانا ہے جو آپ دے سکتے ہیں۔’

بوڑھے نے سپاہی کو اوپر نیچے دیکھا اور بہت دو ٹوک جواب دیا۔ ‘نہیں. اب چلے جاؤ۔’

سپاہی اس سے باز نہ آیا – اس نے ایک بار پھر مسکرا کر سر ہلایا۔ ‘میں دیکھ رہا ہوں، میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میرے پاس اپنے پتھر کے سوپ کے لیے کچھ اور اجزاء ہوں گے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ مجھے یہ سادہ ہی کھانا پڑے گا۔ اگرچہ اتنا ہی مزیدار!’

بوڑھے نے بھنویں اچکا لیں۔ ‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے پوچھا۔

‘جی جناب،’ سپاہی نے جواب دیا، ‘اب اگر آپ مجھے جانے کی اجازت دیں گے…’

سپاہی راستے کے بیچ میں چلا گیا اور اپنے سامان میں سے ایک لوہے کی دیگچی نکالی۔ ایک بار جب اس نے پانی سے بھر لیا تو اس کے نیچے آگ لگانے لگا۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اس نے ریشم کے تھیلے سے ایک عام سا نظر آنے والا پتھر نکالا اور آہستہ سے اسے پانی میں گرادیا۔

بوڑھا حیرانی سے اپنی کھڑکی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔

‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے خود سے پوچھا۔ ‘یقیناً ایسی کوئی چیز نہیں ہے!’

اور تھوڑی دیر بعد سپاہی کو ایک چھوٹی سی چھڑی سے پانی ہلاتے دیکھ کر، بوڑھا آدمی باہر نکلا اور سپاہی سے پوچھا، ‘تم کیا کر رہے ہو؟’

سپاہی نے اپنے برتن سے نکلنے والی بھاپ کی سونگھ لی اور اپنے ہونٹوں کو چاٹتے ہوئے کہا، ‘آہ، مجھے پتھر کے سوپ سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔’ اس نے پھر بوڑھے کی طرف دیکھا اور کہا، ‘یقیناً۔ تھوڑے سے نمک اور کالی مرچ کے ساتھ پتھر کے سوپ سے کم ہی چیزیں بہتر ہیں ۔’

ہچکچاتے ہوئے، بوڑھا اندر گیا اور نمک اور کالی مرچ لے کر آہستہ آہستہ سپاہی کے حوالے کر دیا۔

‘بالکل!’ سپاہی نے پکارا جب اس نے انہیں برتن میں چھڑک دیا۔ اس نے ایک بار پھر بوڑھے آدمی کی طرف دیکھنے سے پہلے اسے ہلایا، ‘لیکن آپ جانتے ہیں، میں نے ایک بار گوبھی کے ساتھ پتھر کے اس حیرت انگیز سوپ کا مزہ چکھا تھا۔’

اس کے بعد بوڑھا آدمی اپنے گوبھی کے پودوں کے پاس پہنچا اور سب سے پکی ہوئی گوبھی اٹھا کر سپاہی کو دے دی۔

‘اوہ، کتنی  شاندار ہے!’ سپاہی نے گوبھی کو کاٹ کر برتن میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اس نے برتن کی ایک گہری سونگھ لی اور بوڑھے سے کہا، ‘تم جانتے ہو، یہ چند گاجروں کے ساتھ بادشاہ کے لیے سوپ ہو گا۔’

بوڑھے نے سوچتے ہوئے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ گاجر لا سکتا ہوں ،’ اور وہ گاجروں کے پاس گیا اور مٹھی بھر توڑ لایا ۔

جب اسے گاجریں پیش کی گئیں تو سپاہی بہت خوش ہوا۔ اس نے انہیں کاٹ کر ایک بار پھر برتن کو ہلایا۔

اور یوں چلتا رہا۔ بوڑھا آدمی برتن کی خوشبو سے خوش ہونے لگا جب وہ پیاز، آلو، گائے کا گوشت وغیرہ لے کر آیا۔ سپاہی نے خود بھی اپنے تھیلے میں مشروم اور جو جیسی چیزیں شامل کیں، یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا کہ سوپ تیار ہے۔

بوڑھا آدمی سپاہی کی طرف دیکھ کر مسکرایا جب اس نے آدھا سوپ اسے پیش کیا۔

‘آپ اندر کیوں نہیں آتے؟ میرے پاس آج صبح بیکری سے سیدھی لائی گئی تازہ ڈبل روٹی ہے جو پتھر کے سوپ کے ساتھ مزیدار ہو گی۔’ اس نے شفقت سے کہا۔

اور اس طرح بوڑھے آدمی اور سپاہی نے مل کر ایک شاندار کھانا کھایا۔ سپاہی نے اپنے تھیلے سے دودھ کا ایک ڈبہ نکالا اور وہ بھی  شیئر کیا۔ بوڑھے آدمی نے سپاہی سے اتفاق کیا کہ سوپ اس سے بہتر تھا جو اس نے پہلے کبھی چکھا تھا۔

یہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ سپاہی نے اسے ریشم کا تھیلا نہیں دیا تھا جس میں پتھر تھا بوڑھے کو حقیقت معلوم ہو گئی۔ ۔ یہ وہ پتھر کبھی نہیں تھا جس نے مزیدار سوپ بنایا ہو۔ بلکہ، مل کر کام کرنے اور فراخدلی سے، وہ اور سپاہی دونوں ایک ایسا لذیذ کھانا بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے وہ اپنے درمیان  شیئر کر سکتے تھے۔

نمازی اور شیطان کا واقعہ

0

ایک شخص اندھیری رات میں فجر کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے ٹھوکر لگ گئی اور وہ منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس آیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ اسے ٹھوکر لگی اور وہ دوبارہ کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ پھر دوبارہ اپنے گھر گیا۔ لباس بدلا اور مسجد جانے کے لیے دوبارہ گھر سے نکلا۔

جیسے ہی وہ اپنے گھر سے باہر نکلا۔ تو اس کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا۔ جو اپنے ہاتھ میں روشن چراغ تھامے ہوئے تھا۔ چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے مسجد کی طرف چل دیا۔ اس مرتبہ چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ خیریت سے مسجد پہنچ گیا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔ نمازی اسے چھوڑ کر مسجد داخل ہوگیا اور نماز ادا کرنے لگا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ مسجد کے باہر آیا۔ تو وہ چراغ والا شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔

تاکہ اس نمازی کو چراغ کی روشنی میں گھر چھوڑ آئے۔ جب نمازی گھر پہنچ گیا۔ تو نمازی نے اجنبی شخص سے پوچھا: آپ کون ہے؟ اجنبی بولا سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں۔ نمازی کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔

اس اجنبی کی یہ بات سن کر نمازی سوچنے لگا۔ ابلیس شیطان کیسے مجھے مسجد تک چھوڑ سکتا ہے؟ اس کا کام تو لوگوں کو بہکانا ہے۔ تو اس شخص نے بڑی حیرت کے ساتھ ابلیس سے پوچھا: تجھے تو میری نماز رہ جانے پہ خوش ہونا چاہیے تھا۔

مگر تم تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک چھوڑنے آئے۔ ابلیس نے جواب دیا کہ جب تمہیں پہلی ٹھوکر لگی۔ اور تم لباس تبدیل کرکہ مسجد کی طرف پلٹے۔ تو اللہ تعالی نے تیرے سارے گناہ معاف فرما دیے۔

جب تمہیں دوسری ٹھوکر لگی تو اللہ تعالی نے تمہارے پورے خاندان کو بخش دیا۔ جس پر مجھے فکر ہوئی کہ اگر اب تمہیں ٹھوکر لگی۔ تو اللہ تعالیٰ کہیں تمھارے اس عمل کی بدولت تمارے سارے گاؤں کی مغفرت نہ فرما دے۔

اس لیے میں چراغ لے کر آیا ہوں کہ تم بغیر گرے مسجد تک پہنچ جاؤ۔ اس شخص نے جیسے ہی یہ بات سنی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ تو دوستو یہ ہے ہمارے رب کی شان۔ سبحان اللہ

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

0

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے میں قحط سالی پیدا ہوگئی۔ اس قحط سالی کی لپیٹ میں نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند سب اس کا شکار ہوگئے۔ مویشی مالکان بے حد پریشان تھے۔اس دوران ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔

خطبہ سننے والوں میں ایک چرواہا بھی مجود تھا۔ مولوی کی یہ بات اس کے دل میں اتر گئی۔ اور اس بات پر اس کا یقین کامل ہوگیا۔ اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پر چلا گیا۔ اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا وہ اپنی بکریاں چروانے کے لیے دوسرے پار جانا چاہتا ہے۔ اور اسے کہا کہ مجھے اپنے اوپر سے گزرنے دے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو لیا اور دریا پر چلتا ہوا دریا پار کر گیا۔ دریا کے دوسری طرف کاعلاقہ گھاس سے بھرا پڑا ہوا۔ درختوں کے پتے بھی سلامت تھے۔ کیونکہ کسی کو یہاں تک آنے کی رسائی نہیں تھی۔ اس نے خوب اچھی طرح اپنی بکریوں کو سیر کروایا اور واپس لوٹ آیا۔

پھر یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر واپس آ جاتا اور شام کو جا کر بکریاں واپس لے آتا۔ اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا۔ لوگ چونک گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے۔ وہ سیدھا سادھا اور صاف دل نوجوان تھا۔ اس نے صاف صاف بات بتا دی کہ جناب میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دریا پر چل کر اپنی بکریاں دوسری طرف چروانے لے جاتا ہوں۔

یہ بات سب نے سنی مگر کسی نے اس چرواہے کی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ مگر بات ہوتے ہوتے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس چرواہے کو بلایا اور سارا ماجرا پوچھا۔

اس چرواہے نے مولوی صاحب کو ہی حوالہ بنا لیا کہ مولوی صاحب میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔ آپ نے جمعہ کے خطبے میں جو نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو بھی حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ تو میں تو بس آپ کے نسخے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔

مولوی صاحب حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ مولوی صاحب نے کہا بھائی صاحب! ایسی باتیں تو ہم ہر جمعہ میں کرتے ہیں۔ فقط ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔ مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ میں تو بس بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوں اور بکریوں سمیت پانی پار چلا جاتا ہوں۔

آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ جسے دیکھنے چرواہے سمیت پورا علاقہ بھی آگیا۔ مجمع زیادہ تھا۔ مولوی صاحب نے ایک دو بار سوچا کہ انکار کر دوں کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں۔ مگر وہ جو مولوی صاحب کو کندھے پر اٹھا کر لائے تھے۔ اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور مولوی صاحب کے حق میں تعریفیں کر رہے تھے۔

آخر کار مولوی صاحب نے اپنے ڈر کو دور کرنے کے لیے ایک رسہ منگوایا۔ پہلے اسے ایک درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے۔

مگر پہلا پاؤں ہی رکھا تھا کہ پانی میں گر گئے۔ مولوی صاحب ڈوبکیاں کھانے لگے اور پانی کے بہاؤ میں بہنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا۔ مولوی صاحب کی اس حرکت نے چرواہے کو پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا۔

اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا۔ اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا پار چھوڑ کر واپس بھی آگیا۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے۔ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز, سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا۔

مولوی صاحب میں آپکی بسم اللہ کی تعریف سے کافی پریشان تھا۔ مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔ اس چرواہے نے درخت سے بندھی رسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا مولوی صاحب یہ ہے۔ آپ کی بسم اللہ کی بیماری آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا۔

آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا۔ لہذا اللہ نے بھی آپ کو رسی کے حوالے کر دیا۔ پھر کہنے لگا مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو۔ میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی۔

مگر آپ نے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا۔ لہذا آپ کو اللہ نے رسوا کر دیا۔ محترم عزیز دوستو یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ ہماری نمازوں اور دعاؤں کا حال بھی یقین سے خالی ہے۔

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

0

مور جتنا اب خوبصورت ہے۔ اس سے کئی زیادہ جنت میں خوبصورت تھا۔ مور کی خوبصورتی پہ سبھی پرندے فدا تھے۔ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود مور سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی؟ جس سے اللہ تبارک و تعالی نے مور کو جنت سے نکال دیا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد ان کو جنت میں بھیج دیا۔ وہ دونوں جنت میں بہت ہی پرسکون رہتے تھے۔ بہت ہی لذیذہ میوے پھل کھایا کرتے تھے۔ لیکن ایک اناج جس کو کھانے سے اللہ پاک نے انھیں منع فرمایا اور وہ اناج گندم تھا۔

چونکہ شیطان حضرت آدم علیہ سلام کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیطان کی حضرت آدم علیہ سلام سے دشمنی ہو گئی تھی۔ شیطان یہ چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دے اور ساتھ میں اماں حوا کو بھی جنت سے نکال دے۔

جب شیطان کو یہ خبر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ کو تمام میوے کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن گندم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو شیطان انتقام کی آگ دل میں لیے جنت کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اور تین سو سال تک وہاں پر بیٹھا رہا کہ کوئی جنت کے دروازے سے باہر آئے اور شیطان اس سے بات کر سکے۔

ایک دن اچانک سے مور جنت سے باہر آگیا۔ شیطان اس کو دیکھتے ہی بہت خوش ہو گیا۔ شیطان نے پوچھا اے خوبصورت پرندے تم کون ہو؟ مور بولا میں مور ہوں۔ اب تم اپنا تعارف کرواؤ شیطان نے جواب دیا کہ میں عالم قروبیہ کا ایک فرشتہ ہوں۔ میں اللہ پاک کی عبادت سے ایک پل بھی غافل نہیں ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں جنت میں جاؤں۔ وہاں کی نعمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔ شیطان مور سےکہنے لگا کہ تم مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گا۔ جس سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی۔ تمہیں بڑھاپا اور بیماری نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جنت میں ہی رہو گے۔ شیطان کی یہ باتیں سن کر۔

لالچ میں آ کر مور نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت کے اندر لے جاؤں۔ لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے۔ وہ شاید تمہاری مدد سکے۔ یہ کہہ کر مور سانپ کے پاس آیا۔ اس کو ساری بات بتائی۔ سانپ بھی شیطان کی باتوں سے بہت خوش ہو گیا۔

پھر شیطان کو اپنے منہ میں چھپا کے جنت میں داخل ہو گیا۔ اور یوں شیطان اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ جنت کے تمام نگہبانوں کو یہ معلوم تھا کہ شیطان یہ چال چل رہا ہے۔ اور جنت میں داخل ہو چکا ہے۔ فرشتے شیطان کو جنت سے نکالنے لگے۔

تب ہی اللہ پاک کا حکم ہوا کہ اس کو ابھی تک جنت میں ہی رہنے دیا جائے۔ وہ فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے رک گئے۔ شاید یہ حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان تھا۔ شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اور اماں حوا کے پاس جا کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔

وہ دونوں ہی شیطان کو پہچان نہ سکے۔ کیونکہ ماضی کے مقابلے میں شیطان کی شکل تبدیل ہو چکی تھی۔ شیطان کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں ہمیشہ جنت میں اسی طرح زندگی گزاریں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کی بات بہت غور سے سننے لگے۔ شیطان نے کہا اگر آپ میری بات مان جائیں تو آپ کو جنت کی اور بھی تمام سہولتیں ملیں گی۔

حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ شیطان کہنے لگا ایک گندم کا دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں۔ تو آپ کو ابدی حیا حاصل ہو جائے گی اور آپ جنت میں ہی رہیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان پیدا ہوا۔ لیکن ان کے دل میں اللہ کی نافرمانی کا خوف غالب آ گیا۔

جبکہ اماں حوا شیطان کی باتوں میں آ گئی۔ جس پر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ پھر اس کے بعد ان دونوں نے اس گندم کے دانے کو چکھ لیا۔ جیسے ہی گندم کا دانہ ان کے اندر گیا۔ تو دونوں کے ستر واضح ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اپنے اپنے ستر چھپانے لگے۔ اور خوفے خدا سے کانپنے لگے۔

اسی دوران اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں کو زمین پر اتار دو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سری لنکا کے قریب نیچے زمین پہ بھیج دیا۔ جبکہ اماں حوا کو جدہ کی سرزمین پر اتارا گیا۔

جن خوبصورت پیروں سے چل کر مور شیطان کو جنت کے اندر لے کر آیا تھا۔ وہی خوبصورت پاؤں اللہ پاک نے مور سے لے لیے۔ سانپ جو اپنے منہ میں شیطان کو چھپا کر لایا تھا۔ اس کے منہ کی خوبصورت خوشبو کو چھین کر۔ اس میں زہر ڈال دیا گیا۔ پھر مور کے ساتھ ساتھ سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔