Allama Iqbal Poetry

-

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

کہاں سے تُو نے اے اقبال، سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچاپادشاہوںمیں ہے تیری بے نیازی کا

خواہشیں بادشاہوں کو غُلام بنا دیتی ہیں مگر صبر غُلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے

آنکھ جوکُچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

عِلم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جینّت ہے جِس میں حوّر نہیں

غُلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

عِلم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جینّت ہے جِس میں حوّر نہیں

اپنے کردار پے ڈال کر پردہ اقبالؔ ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ ،نئی صبح و شام پیدا کر۔

اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا تو اپنے اندر پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر

یہ جنت رہے مبارک زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

spot_img

Related Stories